Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

151   ہوش میں آنے کے بعد وہ خود کو بہتر فیل کر رہی تھی،ڈاکٹر نے مطمئن ہو کر گھر جانے کی اجازت دے دی تھی اس دوران معید اس کے پاس ہی رہا تھا۔ طغرل کا دور دور تک پتا نہ تھا ،معید اس کو سہارا دے کر کار تک لایا تو وہ فرنٹ سیٹ پر براجمان دکھائی دیا تھا ،سیٹ سے ٹیک لگائے بڑے بیگانہ انداز میں بیٹھا تھا۔ معید نے احتیاط سے اس کو سیٹ پر بیٹھنے میں مدد دی جبکہ اس نے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔

”پری! میں نے عائزہ کو صورت حال سے آگاہ کر دیا ہے وہ تمہارا خیال رکھے گی ،تم پریشان مت ہونا۔ نانی جان کو میں سمجھا دوں گا۔“ ڈرائیورنگ کرتے ہوئے معید اس سے مخاطب ہوا۔
وہ ابھی بھی دواؤں کے زیر اثر غنودگی میں تھی جواباً صرف ”ہوں“ کرکے رہ گئی اور اس کی ہوں پر طغرل نے چونک کر بیک مرر میں دیکھا ،ڈریسنگ اس کی پیشانی کو ڈھانپے ہوئے تھی ،آنکھیں بند تھیں پورے چہرے پر خراشوں کے نشانات تھے جن سے اٹھتی ٹیسوں نے شاید اسے بری طرح نڈھال کر ڈالا تھا۔


”چند گھنٹوں قبل وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی ،پہلی بار وہ میرے لئے سنوری تھی ،نکھری تھی اور دل کو بے قرار کر گئی تھی کتنا خوش تھا میں دل تو پہلے ہی فریبی بن گیا تھا آج تو یہ بالکل ہی تمہارا اسیر بن بیٹھا ہے شاید میری ہی نظر تم کو لگ گئی ہے ،پارس! جو اس حال میں تم کو دکھائی دے رہی ہو۔“ دوسرے ہی لمحے وہ اس سے اپنی شدید ترین ناراضی بھول کر بے چینی محسوس کرنے لگا وہ یک ٹک بیک مرر سے اسے دیکھ رہا تھا ،جو اس کی نگاہوں سے بے خبر گہری غنودگی میں چلی گئی تھی۔
”اوں ہوں… صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔“ اس کی محویت دیکھ کر معید کو کھنکار کر اپنی موجودگی ظاہر کرنی پڑی۔
”ناراضی کا دعویٰ بہت کرتے ہو لیکن ناراض رہ نہیں سکتے۔“ وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔
”شاید محبت انسان کو اتنا کمزور بنا دیتی ہے میری طرح بے اختیاری میں کچھ کرنا بھی چاہوں تو زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہوں۔
ہر بار پارس کی بے اعتباری و بداعتمادی میرے اندر شرمندگی و اذیت پیدا کر دیتی ہے اور جب یہ میرے سامنے آتی ہے میں سب بھول جاتا ہوں ،سارے عہد ،تمام خفگی ہوا ہو جاتی ہے۔“ وہ مرر سے نگاہیں ہٹا کر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”محبت کے وائرس تمہارے اندر کتنی بہت شدت سے گھس گئے ہیں ،اس کا اندازہ اب مجھے ہوا ہے ،میرے اللہ مجھے اس قسم کی محبت سے بچا کر رکھنا۔
“ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”اس قسم کی محبت تم جیسا بندہ ہی افورڈ کر سکتا ہے جہاں محبت میں منزل کے سامنے جا کر ہی ایسا راستہ آتا ہو ،جو واپس منزل سے دور پہلی راہ پر لاکھڑا کر دیتا ہو۔“ اس کے گھبرانے پر وہ مسکرا کر خاموش ہو گیا ،البتہ اس کی نگاہیں بار بار بیک مرر پر ہی بھٹک رہی تھیں۔
###
”عابدی!! آپ کو شیری کے ساتھ اس طرح بات نہیں کرنی چاہئے تھی وہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہے ،کسی دوسرے کی کامیابیوں کو تھپڑ کی طرح اس کے چہرے پر مارنے کی بجائے ہمیں بہت پیار سے اسے اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا چاہئے۔
“ رات شب خوابی کے ڈریس میں وہ بیڈ پر دراز ہوئے تو مسز عابدی نے اپنے مخصوص دھیمے و نرم لہجے میں ان سے کہا۔
”اچھا صاحب زادے نے شکایت کی ہے؟“ ان کی طبیعت کا خیال کرکے وہ بے تاثر لہجے میں گویا ہوئے۔
”شکایت نہیں کی ،وہ گھر چھوڑ کر جا رہے تھے۔“
”وہاٹ… اس کی اتنی ہمت ،وہ گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکی دے؟“ وہ شدید غصے کے باعث اٹھ کر بیٹھ گئے۔
”وہ ایک بار کیا ہزار بار بھی گھر چھوڑ کر جائے ایسی خود سر اولاد کی قطعی پروا کرنے والا نہیں ہوں میں نور جہاں! تم نے روکا ہوگا اس کو جانے دیتیں کیوں روکا؟“
”پلیز عابدی! اتنا ہائپر مت ہوں ،ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں اگر بابا نے کوئی ایسی ویسی حرکت کر لی یا ہمیشہ کیلئے گھر چھوڑ کر چلے گئے تو کہاں ڈھونڈیں گے ہم اپنے اکلوتے بیٹے کو ،آپ کے اس رویے نے ویسے ہی اس کو بے حد دکھی کر دیا ہے۔
“ عابدی صاحب کو از حد اشتعال میں دیکھ کر وہ رو پڑی تھیں۔
”نور جہاں پلیز روؤ نہیں ،ماؤں کے یہ آنسو اولاد کو بگاڑنے کا باعث ہوتے ہیں۔“ وہ قدرے نرمی سے گویا ہوئے۔
”میں کیا کروں عابدی! میں اب بیٹے کی جدائی برداشت نہیں کر پاؤں گی۔“ عابدی نے ان کو قریب کرکے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
”تم کیا سمجھی ہو ،میں اپنے بیٹے سے پیار نہیں کرتا؟ یہ سب میں اس کے بھلے کیلئے کر رہا ہوں۔
”لیکن یہ طریقہ مناسب تو نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی بچہ ہے جس کو زبردستی ڈانٹ ڈپٹ کر ہم اپنی مرضی پر چلنے پر مجبور کریں آپ کو کچھ ٹائم دینا چاہئے اس کو فیصلہ کرنے کیلئے آفٹر آل یہ شیری کی ساری لائف کا معاملہ ہے۔“ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں۔
”میں نے یہی کہا ہے شیری سے وہ خوب اچھی طرح سوچ سمجھ لیں ،اپنے اور عادلہ کے ریلیشن کے بارے میں ،وہ کتنا بھی ٹائم لے میں دینے کو تیار ہوں، مگر فیصلہ اسے عادلہ کے حق میں ہی کرنا ہوگا۔
“ ان کا انداز بے لچک و سخت تھا۔
”خواہش تو میری بھی یہی ہے لیکن وہ عادلہ سے نہیں پری سے شادی کا خواہش مند ہے میرے ہزار سمجھانے پر بھی نہیں مانا۔“ انہوں نے بھی نگاہیں جھٹکا کر گویا اعتراف جرم کیا۔
”اس سے بڑھ کر بھی کوئی پاگل پن کی حرکت ہو سکتی ہے اور یہ بات فیاض برداشت کر سکے گا؟“ وہ غرا کر بولے۔
###
میری بچی کیسی طبیعت ہے اب تمہاری؟“ اسے جاگتے دیکھ کر دادی نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا‘ وہاں موجود عائزہ بھی اس کے قریب بیٹھ گئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
”بہتر ہے دادی جان!“ اس کی آواز خاصی بوجھل و دھیمی تھی۔
”آواز سے تو نہیں لگ رہا تمہاری تکلیف کم ہوئی ہے چہرہ بھی خاصا سوجھ گیا ہے اور سرکار زخم نا جانے کتنا گہرا ہوگا؟“ اس کے سر پر بندھی ڈریسنگ چہرے ،ہاتھوں اور پیروں پر پڑی خراشوں اور زخموں کو دیکھ کر وہ سخت پریشان تھیں۔
”دادی جان! آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہیں ،یہ سب معمولی زخم ہیں دو چار دنوں میں مندمل ہو جائیں گے۔
”عائزہ ٹھیک کہہ رہی ہے دادی جان! بہت معمولی سی چوٹیں آئی ہیں چند دنوں میں ٹھیک ہو جاؤں گی ،آپ بالکل بھی فکر نہیں کریں ،میری تکلیف بہت کم ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے انہیں تسلی دینے کی سعی کی۔
”اللہ میرے تمام بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ،ہر دکھ ،مصیبت ،پریشانی و تکلیف سے بچائے۔ پروردگار نے میرے بچوں پر بہت اپنی رحمت کی ہے جو بڑے حادثے سے بچا لیا ،مجھے تو یہی چوٹیں زیادہ لگ رہی ہیں ،جن کو سب معمولی کہہ رہے ہیں۔
“ ان کی نگاہیں برسنے کو کو تیار تھیں مگر پری کو بھی رونے کیلئے تیار دیکھ کر انہوں نے اپنے آنسوؤں پر ضبط کیا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”تم گھبراؤ نہیں ،میں نے شکرانے کے نفل بھی پڑھ لئے اور صدقہ بھی تم دونوں کا دے دیا ہے۔ صدقے سے ہر بلا ٹل جاتی ہے جا کر ذرا طغرل کو بھی دیکھوں ،وہ ظاہر نہیں کر رہا ہے مگر چوٹیں اسے بھی بہت آئی ہیں۔ اترا ہوا چہر اس کی تکلیف بتا رہا ہے۔
“ وہ بولتی ہوئیں آہستہ آہستہ اس کے کمرے سے چلی گئی۔
”کیسا فیل کر رہی ہو پری! درد زیادہ تو نہیں ہو رہا؟“ دادی کے جانے کے بعد عائزہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی۔
”بس سر میں درد ختم نہیں ہو رہا ویسے میں ٹھیک ہوں۔“ وہ اس کا سہارا لے کر نیم دراز ہوئی عائزہ نے اس کے سر کے نیچے کشن رکھ دیا۔ وہ بڑی محبت سے اس کا خیال رکھ رہی تھی۔
”کچھ کھاؤ گی پری! تم نے رات سے جوس کے علاوہ اور کچھ نہیں لیا۔“
”ابھی کسی چیز کو دل نہیں چاہ رہا۔“
”دل تو تمہارا ایسا ہی ہے میں ابھی چکن سوپ اور بریڈ لے کر آتی ہوں زبردستی کھلاؤں گی تم کو ابھی میڈیسن بھی کھانی ہے۔“
”پلیز… عائزہ کچھ دیر بعد کھا لوں گی۔ تم ایک بات بتاؤ۔“ اس نے عائزہ کا ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکتے ہوئے کہا۔
”ہاں… پوچھو۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
”وہ… طغرل کے چوٹیں زیادہ آئی ہیں کیا؟“ وہ ایک عجیب سی جھجک کا شکار تھی اور طغرل کا نام لیتے ہوئے اسے بہت اکورڈ سا فیل ہو رہا تھا۔
”تمہاری جیسی ہی ان کی چوٹیں ہیں مگر جس طرح تمہارے سر پر زخم آیا ہے بالکل اسی طرح ان کی دائیں ٹانگ بھی زخمی ہے۔ تمہیں ایسی بے وقوفی کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی پری ،وہ تمہیں ڈنر پر لے کر جا رہے تھے اگر تم کو جانا نہیں تھا تو منع کر دیتیں۔
ان کے ساتھ نہیں جاتیں ،سمجھ نہیں آئی تمہیں کار سے اترنے کی اور پھر وہاں اندھیرے میں بھاگنے کا خیال کیوں آیا بھلا؟“
”اچھا تمہیں سب معلوم ہو چکا ہے تو پھر یہ تم نے معلوم نہیں کیا ڈنر کیلئے ہوٹل لے جانے کے بجائے وہ مجھے اس ویرانے میں کیوں لے جا رہے تھے ان کے راستہ بدلنے کا مقصد کیا تھا؟ اس کے لہجے میں بے اعتباری و بے اعتمادی رچی بسی تھی۔
”میں نے پوچھا تھا ان سے ،لیکن تم بتاؤ… تم کیا سمجھی تھیں تمہیں وہاں لے جانے کا مقصد کیا تھا طغرل بھائی کا؟“ عائزہ نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر ڈالا۔
”کیا مقصد ہو سکتا ہے ان کی نیت میں فتور میں بہت پہلے نوٹ کر چکی تھی۔ بہانے بہانے سے وہ مجھ سے قریب ہونے کی کئی بار کوشش کر چکے ہیں اور ہر بار میں نے پکڑا تو وہ بڑی معصومیت سے اپنا دامن بچا کر انجان بن جاتے تھے اور کل بھی انہوں نے ایسا ہی کچھ کرنے کی ٹھانی تھی۔
“ بات کرتے کرتے اس کی آواز بھرّا گئی تھی۔
”ان کی حرکتوں سے مجھے پہلے کچھ شبہ ہوا تھا اور جب انہوں نے گاڑی اس ویرانے کی طرف موڑی تو مجھے یقین ہو چلا تھا اور میں نے کار کا دروازہ کھولا اور دوڑ لگا دی۔“ اپنی بات کے اختتام پر وہ رو پڑی تھی۔
”اف خدایا… پری تم نے بدگمانی و بے اعتباری کی انتہا کر دی ہے ابھی جو کچھ بھی تم نے کہا ہے طغرل بھائی کے متعلق وہ سراسر بد اعتمادی و غلط فہمی ہے تمہاری وہ اس قسم کے بندے نہیں ہیں نامعلوم تمہیں کیوں ان کے خلاف اس طرح کی بدگمانی ہو گئی ہے؟ وہ بے حد شریف و مضبوط کردار کے مالک ہیں اور پھر اگر ان کو ایسا ہی کچھ کرنا ہوتا تمہارے ساتھ تو وہ کیوں تم سے شادی کرنے کیلئے خوار ہوتے؟ تمہیں پانے کیلئے انہوں نے کبھی دادی جان کی منتیں کیں کبھی اپنی مما سے التجائیں تو کبھی پاپا کو قائل کرنے میں لگے رہے اور تم…؟“ عائزہ جذباتی انداز میں بولتی چلی گئی۔
”وہ سب دکھاوا اور بکواس تھی اپنی اصلیت چھپانے کا طریقہ تھا۔“ وہ اسی طرح بدگمان انداز میں کہہ رہی تھی۔
”تم کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو… وہ ایسا کیوں کریں گے بھلا؟“
”میں ان کو لوٹ کا مال لگتی ہو… لاوارث اور تنہا۔“
”پری… دماغ خراب ہو چکا ہے تمہارا جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو ۔کس قدر سطحی سوچ ہے تمہاری کتنے پراگندہ ذہن کی مالک ہو تم… تم کتنی سنگدلی سے طغرل بھائی پر الزام لگا رہی ہو ارے وہ تو تمہیں اپنا بنگلہ دکھانے لے جا رہے تھے۔ انہوں نے وہاں اپنا پورشن علیحدہ سے بنوایا ہے وہ تمہیں دکھا کر سرپرائز دینا چاہتے تھے۔“ عائزہ کے انکشاف پر بھونچکی سی رہ گئی۔
”یہ کیا کہہ رہی ہو تم…؟“

   1
0 Comments